ثقافتِ عاشورا، اسلحۂ استقامت اور موجودہ دور کی سامراجی یلغار

ثقافتِ عاشورا، اسلحۂ استقامت اور موجودہ دور کی سامراجی یلغار

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تحریر: سیدہ نصرت نقوی

عاشورا کا واقعہ صرف تاریخ کا ایک المیہ نہیں، بلکہ ایک مسلسل تحریک اور زندہ ثقافت ہے جو ہر دور میں ظالم و جابر قوتوں کے سامنے مظلوم اور حق پرست انسان کی استقامت اور قیام کا اعلان ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے میدانِ کربلا میں سر کٹوا کر جس دین، جس عزت اور جس ولایت کی حفاظت کی، وہ آج بھی دنیا بھر میں جاری شیطانی نظاموں کے مقابل ایک روشن چراغ ہے۔

آج جب دنیا پر عالمی استعمار، صہیونیت، اور ان کے آلہ کار حکمران مسلط ہیں — اور امتِ مسلمہ کی غیرت، حمیت اور عقائد پر حملے ہو رہے ہیں — ایسے وقت میں حسینیت کا مفہوم، عاشورائی ثقافت اور استقامت کی روشنی میں جینا اور مرنا ہی عزت و نجات کا راستہ ہے۔

ابو علی العسکری کا حالیہ پیغام بھی اسی حسینی فکر کا تسلسل ہے، جس میں نہ صرف امت کو ہوشیار کیا گیا بلکہ یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ کربلا کی طرح آج بھی میدان موجود ہے اور لشکرِ یزید ہر دور میں کسی نہ کسی نام سے زندہ ہے۔ اس پیغام میں واضح طور پر بیان کیا گیا کہ:

عراق اور خطے میں اسلحۂ استقامت ہی محافظ ہے

عراق کی موجودہ سلامتی، داعش و تکفیری لشکروں کی شکست، اور مقدسات کا تحفظ اگر ممکن ہوا تو صرف اور صرف مقاومت کے ہتھیار سے۔ استقامت کا یہی اسلحہ تھا جس نے بغداد کو امریکی-سعودی تکفیری اتحاد کے ناپاک قبضے سے بچایا۔ اور آج بھی یہی اسلحہ باقی رہنا چاہیے، کیونکہ جب تک امریکہ اور اس کے صہیونی آلہ کار موجود ہیں، استقامت کی بندوقیں کبھی خاموش نہیں ہونی چاہییں۔

ظالموں کے خلاف قیام اور نصرتِ امام مہدی (عج) کا وسیلہ

امام حسینؑ کا قیام ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ ظالم کے سامنے خاموشی، بزدلی اور پسپائی خود گناہِ عظیم ہے۔ یہ اسلحۂ استقامت دراصل امام زمانہ (عج) کی نصرت کا سب سے بڑا اور فوری وسیلہ ہے، اور اس کا فیصلہ کہ یہ کب رکھا جائے، صرف امام معصوم کے ہاتھ میں ہے نہ کہ کسی بزدل، دنیا پرست اور استعماری ایجنٹ کے۔

بدترین رویہ: بزدلوں کی عزت و غیرت کی باتیں

ابو علی العسکری نے بڑی خوبصورتی سے ان منافقین کی بھی نشان دہی کی جو خود تو بزدل اور ذلیل دنیا پرست ہیں لیکن غیرت و شرافت کی باتیں کرتے ہیں۔ استقامت کا دشمن، دراصل دین، امت اور مقدسات کا دشمن ہے۔ اگر آج کوئی ہتھیار ڈالنے کی بات کرے، وہ دراصل یزید وقت کا نمائندہ ہے۔

ابھی معرکہ باقی ہے

امریکی افواج کے اڈے آج بھی عراق میں ہیں، ترکی کا فوجی قبضہ بھی قائم ہے، اور صہیونی ایجنٹ پیشمرگے بھی متحرک ہیں۔ 2014 کی تاریخ سب نے دیکھی کہ کس طرح داعش نے مقدسات، مساجد، مزارات، خواتین اور بچوں تک کو نشانہ بنایا — اور اگر حشد الشعبی و استقامت کے مجاہد نہ ہوتے تو آج عراق بھی یزیدیت کے پنجے میں ہوتا۔ آج بھی یہی معرکہ جاری ہے، اور ضرورت ہے کہ مقاومت کے سپاہی میدان میں ثابت قدم رہیں۔

عاشورائی فکر اور استقامت کا یہی پیغام ہے کہ ظالم و جابر قوتوں کے سامنے سر جھکانا حرام ہے، چاہے وہ سامراج ہو، صہیونیت ہو، یا اس کے آلہ کار تکفیری گروہ۔ امام حسینؑ کا خون آج بھی امت کو غیرت، شجاعت اور قیام کا سبق دے رہا ہے۔ ابو علی العسکری کا پیغام دراصل اسی حسینی راستے کی تائید اور دفاعِ امت و مقدسات کی للکار ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف اپنے دل و دماغ میں استقامت کی یہ آگ جلائے رکھیں بلکہ اپنی نسلوں کو بھی یہی درس دیں کہ عزت، غیرت، دین اور ولایت کی حفاظت کے لیے میدان میں رہنا ہی نجات ہے۔ آج بھی حسینیت زندہ ہے، آج بھی یزید وقت سامنے ہے — اور استقامت کی بندوقیں اور شہادت کا جذبہ ہی ہمارے مقدسات، دین اور امت کا محافظ ہے۔

اللھم اجعلنا من أنصار الدین، و الذابین عن حرم رسولک، و المدافعین عن الولایۃ و المقدسات

والسلام علی من اتبع الہدی

Leave a Reply

Your email address will not be published.