جب کوئی سلطنت بظاہر طاقتور نظر آتی ہے تو اس کے ستون اکثر اندر سے کھوکھلے ہونے لگتے ہیں؛ امریکہ اور غاصب اسرائیل بھی آج اسی دوہرے منظرنامے میں الجھے ہوئے ہیں
تحقیق و تحریر: سیدہ نصرت نقوی
ذیل میں ایک مکمل انٹیلیجنس معلوماتی و تجزیاتی مقالہ پیش کیا جا رہا ہے جو امریکہ و اسرائیل کی موجودہ اندرونی صورتحال، خارجی عزائم، اور ان کے باطنی رازوں کو آشکار کرتا ہے۔ اس میں خفیہ تحریکوں، معاشرتی اضطراب، اور دینی و نظریاتی کشمکش کے تناظر میں گہری بصیرت دی گئی ہے:
جب کوئی سلطنت بظاہر طاقتور نظر آتی ہے تو اس کے ستون اکثر اندر سے کھوکھلے ہونے لگتے ہیں؛ امریکہ اور غاصب اسرائیل بھی آج اسی دوہرے منظرنامے میں اُلجھے ہوئے ہیں: ایک طرف وہ بین الاقوامی سطح پر طاقت اور جارحیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، دوسری طرف اندرون خانہ ایک خفیہ زوال، نظریاتی کھوکھلا پن، اور عوامی بغاوت کی فضا پنپ رہی ہے۔ یہ مقالہ ان قوتوں کے اندر چھپے وہ خفیہ عوامل اور “غیراعلانیہ جنگوں” کو بے نقاب کرتا ہے جو صرف میڈیا کی سرخیوں سے چھپے رہتے ہیں۔
امریکہ: مظاہرہ طاقت یا ذہنی افلاس؟
امریکہ کی خارجہ پالیسی اکثر جمہوریت، آزادی اور امن کے نام پر پیش کی جاتی ہے، لیکن درحقیقت یہ “نیو ورلڈ آرڈر” کے اس ایجنڈے کی تکمیل ہے جس کی بنیاد پر عالم اسلام، افریقی ممالک، اور مشرقی دنیا کو مسلسل عدم استحکام میں رکھا گیا ہے۔
1. ٹرمپ کا دوبارہ ابھار — نظام کے خلاف بغاوت یا چالاکی؟
ٹرمپ کی دوبارہ سیاست میں آمد امریکی اشرافیہ (Deep State) کے اس تقسیم شدہ نظریے کو ظاہر کرتی ہے جہاں ایک طرف سیکولر، لبرل نظام ہے اور دوسری طرف نیو-کنزرویٹو مذہبی قوم پرست۔
50501 تحریک کا مقصد صرف احتجاج نہیں بلکہ “ریاست کے اندر ریاست” کے خلاف عوامی بیانیہ کو پیدا کرنا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی کے حساس حلقے اس عوامی بیداری کو ایک نئے خانہ جنگی کے بیج کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
2. داخلی افراتفری: دم توڑتی جمہوریت
معاشرتی ناہمواری، نسل پرستی، اور امیگریشن پالیسیز نے امریکہ کے اخلاقی دعوے کو بُری طرح مجروح کیا ہے۔ وال اسٹریٹ کے اشرافیہ اور صنعتی کمپلیکس کی بالادستی نے عوامی رائے کو بے اثر کر دیا ہے۔ CIA اور NSA جیسے ادارے اب محض اندرونی شورشوں کو دبانے کے آلات بن چکے ہیں۔
اسرائیل: جنگ کی لت یا وجودی خوف؟
اسرائیل کی جارحانہ روش نہ صرف فلسطین بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے خلاف ایک مسلسل عسکری و نظریاتی حملہ ہے۔ مگر اس کے پیچھے موجود اندرونی بحران زیادہ خطرناک ہے — جو میڈیا پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔
1. نیتن یاہو کی جنگی سیاست
غزہ پر حملے اور ایران کو ایٹمی حملے کی دھمکیاں صرف بیرونی دشمن کو دبانے کے حربے نہیں، بلکہ اندرونی بغاوت کو روکنے کی سیاسی تدبیر ہیں۔ نیتن یاہو کا اقتدار، مذہبی شدت پسندوں (مثلاً سموٹریچ) اور سرمایہ داروں کی گٹھ جوڑ کا مرہونِ منت ہے۔
2. عوامی بےزاری — اسرائیل کے لیے وجودی خطرہ
حالیہ سروے بتاتے ہیں کہ اکثریتی اسرائیلی اب حکومت پر اعتماد نہیں کرتے۔ عرب اقلیتیں سیاسی نظام سے مایوس اور یہودی اکثریت معاشی ناہمواری سے تنگ آ چکی ہے۔ ایسے حالات اسرائیل کو “سوشیو-پالیٹیکل بلاسٹ زون” میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
3. الحاقِ مغربی کنارے — ایک صلیبی خواب
بیزالیل سموٹریچ جیسے افراد کا 2025 کو “الحاق کا سال” قرار دینا یہودی انتہاپسندی کی وہ شکل ہے جو قدیم صہیونی خواب — “گریٹر اسرائیل” — کی تکمیل کا عندیہ دیتی ہے۔ یہ صرف سیاسی منصوبہ نہیں، بلکہ مذہبی پیش گوئیوں کی تکمیل کا ذریعہ بھی سمجھا جا رہا ہے۔
خفیہ تہیں: مذہب، سرمایہ، اور جنگی انجینئرنگ
امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ایک نظریاتی رشتہ ہے جو صرف سفارت کاری سے نہیں جُڑا بلکہ بائبل، تورات، اور تلمود کے “آخرالزمانی” بیانیے سے جنم لیتا ہے۔ “آرمگیڈون” کا تصور دونوں ریاستوں کی خفیہ پالیسیوں کا مرکزی نکتہ بن چکا ہے، جہاں جنگ کو مہدی اور مسیح کی آمد کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔
1. سرمایہ داری کا مذہبی ایجنڈا
ورلڈ بینک، IMF، اور ملٹی نیشنل کمپنیاں دراصل “خفیہ صلیبی جنگوں” کے مالی ستون ہیں۔ ان کے ذریعے اسلامی دنیا کو قرضوں، کرپشن، اور مفلسی میں دھنسا کر ذہنی و سیاسی غلام بنایا جا رہا ہے۔
2. میڈیا وار — دماغوں پر قبضہ
CNN، Fox News، Times of Israel جیسے ادارے ایک مخصوص فکری سانچے میں رائے عامہ کو قید کرتے ہیں۔ اسرائیل کی خون آشامی کو دفاع اور فلسطینیوں کی جدوجہد کو دہشت گردی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ “فکری قتل” کی بدترین مثال ہے۔
نتیجہ: کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟
آج کا امریکہ، زوال پذیر روم اور اسرائیل، یہودیوں کی ایک تاریخی عادت — بے اعتدالی، ظلم، اور اخلاقی انحطاط — کا عکاس ہے۔ اندرونی شورش، عوامی بیزاری، اور اخلاقی بدحالی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ یہ نظام اب بظاہر مضبوط مگر باطن میں لرزیدہ ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب ظلم بڑھتا ہے، تو قدرت کا تازیانہ قریب ہوتا ہے۔
آج بھی، اگرچہ امریکہ مذاکرات کے پردے میں چھپنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسرائیل خون میں لت پت ہے، مگر ان کی اندرونی بنیادیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں — اور یہی کمزوری انہیں ایک عظیم اختتام کی طرف لے جا رہی ہے۔
Leave a Reply